میری کسی طرح وہ جاہل سابولنے کا بھی نہیں پتا۔ میں ہر بات پر اسکی بے عزت کر دیتی تنقید کرتی عمر پر غصہ کرتی عمر مجھے پیار سے سمجھاتا اور پھر چپ ہو جاتا یا پھر کبھی غصہ ہو کر گھر سے باہر چلاجاتا۔ میں ایک بار چھوڑ کر امی ابو کے پاس چلی گئی۔ اورضدکی کے اس طلاق لینی ہے عمر سےامی ابو نے بہت سمجھایا کے اس بندے کا کردار بہت اچھا ہے اور بہت خیال رکھنے والا ہے بس بچارہ پڑھا لکھا نہیں ہے باقی کیا کبھی اس نے تم پر ہاتھ اٹھایا گالی دی ہولیکن میں بس طلاق لینا چاہی تھی میں نے جھوٹ بولا کے وہ خرچ نہیں دیتا مجھے امی ابو نے عمر کو بلوالیاوہ میرے سامنے بیٹھا تھا
امی ابو کہنے لگے عمر کیوں بھائی تم شہزادی کو خرچ کیوں نہیں دیتےعمربابا سے مخاطب ہو کر بولا انکل جوکما کر لاتا ہوں سب اخراجات نکال کر جو بچایے شہزادی ہاتھ پر کھ دیتا ہوں۔میرے چاچا تایا سب موجود تھے وہاں میں بولی مجھے 30 ہزار روپے ہر مہینے چاہنے بس اس شرط میں جاوں گی میں عمر کے ساتھ، عمر خاموش ہو گیا سر جھکائے بیٹھا تھا چاچا بولے ہاں عمر دے سکتے ہو 30 ہزار خرچہ ۔ پہلے عمر خاموش رہا پھر میری طرف دیکھنے لگا۔ پھر بولا ٹھیک ہے میں شہزادی کو 30 ہزار روپے دوں گا الگ سے ہر مہینے۔۔میں نے دل کی گالی دی کمینے دیکھنا جینا حرام کر دوں گی تمہارا میں عمر کے ساتھ چلی گئی ہم ۔ بجلی پانی گیس کابل راشن کھانا سب اخراجات بھی تھے۔ عمر سے جب بھی پوچھا کیا کام کرتے ہو تو کہتا گورنمنٹ آفس میں کام کرتا ہوںاس کے علاوہ نہ میں کبھی ان سے پوچھا اور نہ انھوں نے مزید بتایا خیر عمر مجھے ہر مہینے 30 ہزار روپے دیتا ایک دن میں نے کہا مجھے آئی فون لیکر دو میں بس تنگ کرنا چاہی تھی کے عمر مجھے طلاق د ے دے۔مگر عمر مسکرانے لگا میرے پاوں پکڑے اور بولا شہزادی نے دوں گا پریشان نہ ہو۔بس مجھے چھوڑ کر جانے کی بات نہ کیا کرو۔ جو کہوگی کروں گا میں بھی کھانے میں مرچ ڈال دیں تو بھی زیادہ نمک وہ تھک ہارا کام سے آتا کھانا کھا کر بے ہوشی کی طرح سو جاتا نہ جانے کون سا کام کرتا تھا کے اتنا تھک جاتا ہے میں جتنی نفرت کرتی تھی اس جاہل سے وہ اتنی محبت کرتا تھامیں ایک دن اپنی دوست کے ساتھ کار میں شاپنگ کرنے جارہے تھی شہر کے سب مہنگے اور بڑے مال میں جب ہم ایک بس اڈے کے پاس سے گزرے تو میری زندگی نے جومنظر دیکھا میں بے جان ہوگی۔ وہ مرد جس سے میں بہت نفرت کرتی تھی جس کو میں جاہل ان پڑھاتی تھی جس کو کبھی میں نے پیار سے کھانا تک نہ دیا تھا جس کا بھی حال نہ پوچھاتھا جسے میں انسان ہی نہیں سمجھتی تھی جسے میں قبول نہیں کرنا چاہی تھی وہ عمرسر پر بوجھ اٹھانے کی کا سامان بس پر چڑھا رہا تھا
میری ٹانگیں کانپ رہی تھی پرانے سے کپڑے پہنے پسینے سے شرابور پاوں میں ٹوٹی ہوئی جوتی پہنے ۔فارس میں مر کیوں نہ گئی تھی وہ میرے لئے کیا کچھ کر رہاتھا اتنے میں ایک شخص بولا اوئے چل بے جلدی سامان اٹھا اور دوسری بس کی چھت پر لوڈ کر عمر کو شاید بھوک لگی تھی ہاتھ میں روٹی پکڑی رول کیا ہوا ساتھ روٹی کھارہا تھا ساتھ سامان اٹھا رہا تھامیں قربان جاوں عمر میرے لئے کس درد سے گزر رہاتھا۔ میں آنسو لیئے دیکھتی رہی۔اس کا کام ختم ہواوہاں سائیڈ پر ایک دکان کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا کتنی بے بسی تھکن تھی عمر میں ۔۔سارا دن وہاں در دسہتا اور رات کو میری باتیں فارس یہ کوئی حادثہ تھا یا اللہ کی مرضی بس میرا دل بدل گیامیں بن بتائے پھر میرے گھر واپس لوٹ گئی بہت روئی تھی بہت زیادہ۔۔ عمرکو پلاؤ بہت پسند تھامیں نے پلاو بنایا عمر گھر آیا میں اسے کھانا نہیں دیتی تھی خودگرم کر کے کھاتا تھا۔۔ گھر آیا مجھ سے سلام کیا کچن میں گیا پلاؤ دیکھ کر بولا شہزادی آج تو آپ نے کمال کردیا ایک سال بعد پلاوکھانے لگا ہوں۔ عمر کھانا پلیٹ میں ڈال کر میرے پاس بیٹھ گئے کھانا کھانے لگے میں عمر کی طرف دیکھے جارہی تھی عمر کتنادر رہتا ہے اور بتاتا بھی نہیں میں کتنی اذیت دیتی ہوں کوئی شکوہ نہیں عمر پر آج مجھے بہت پیار آ رہا تھا دل چاہ رہا تھا سینے سے لپٹ جاوں عمر نے کھانا کھایا پھر جب سے پیسے نکالے کہنے لگایا شہزادی 30 ہزار میں چیخ چیخ کر رونے گی عمر کے پاوں چوم لیے عمرمجھے کچھ بھی نہیں چاہے مجھے یہ بھی نہیں چاہے کر حیران تھا مجھے کیا ہو گیا ہے عمر نے میرا ہاتھ تھام بولے اگر یہ پیسے کم ہیں تو اور لا دوں گا مجھے چھوڑ کر نہ جانا کہنے لگےشہزادی بہت بھولی ہوم پاگل تم بچھڑنے کے بعد کہاں جاوگی خداجانے بہت پیار کرتا ہوں تم سے اس لیے تم کو خود سے دور نہیں کرسکتا میں عمر کے سینے سے لگ گی آج مجھے نہ کوئی آئی فون چاہئے تھا۔ کوئی بڑاگھر گاڑی مجھے اب دنیا کی کوئی خبر بھی میری دنیاعمر بن چکا تھا ہم عورتیں کیسے منہ پھاڑ کر کہہ دیتی ہیں جب کھلانہیں سکتے تھے تو شادی کیوں کی بات بات پر جھگڑا اور طے شروع کردیتی ہیں بھی اپنے شوہر کا چہرہ دیکھا جس میں نے عمرکا دیکھا تھا خدا کی قسم ہم ایک سانس نہ لے سکیں اس ماحول میں یہاں مرد اپنی عملی کے لیئے خودکو قربان کر دیتا ہے جتنے شوہر کما تا ہے اس پرخوش رہو پیہ بھی سب کچھ نہیں ہوتا خدا کی تم مجھے بڑی گاڑیوں اور اے اوائل میں وہ سکون نہیں ملابس سکون عمرکی بانہوں میں آتا ہے جو سکون عمر کا سر دبانے میں آتا ہے۔ وسکون مر کی پسند کے کھانے بنانے میں آتا ہے کفر کی بیٹی کو جھونو کی د کی وہی آپ کبھی جنگ نہیں کریں گی عمراب میری زندگی ہے۔۔
0 Comments